ہ تجارت میں کیا قباحت ؟ مصنف - ریاض ملک تاریخ - 1 اکتوبر 2018 ایسا لگ رہا ہے کہ جب بھارت اور پاکستان کشید گی کے تازہ ترین مرحلہ میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے میں لگے تھے تو عالمی بنک ایک رپورٹ کو حتمی شکل دے رہا تھا جس کا لب لباب یہ ہے کہ اگر اسلام آباد اور دہلی باہمی تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو دوطرفہ تجارت کی سطح کو 37 ارب ڈالر تک بڑھانے کے وسیع امکانات موجود ہیںجبکہ فی الوقت باہمی تجارت کا سالانہ حجم محض 2ارب ڈالر کے قریب ہے۔عالمی بنک کی جانب سے پیر کو ’’A Glass Half Full: The Promise of Regional Trade in South Asia‘‘نام سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں ان اہم عوامل کی نشاندہی کی گئی ہے جس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعلقات معمول پر نہیں آپارہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، جنوبی ایشیا کے دو بڑوں ملکوں پاکستان اور بھارت کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے ناصرف دونوں ملکوں کی باہمی تجارت پر منفی اثر پڑ رہا ہے بلکہ خطے کی تجارت بھی اس وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کی راہ میں وہ رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق براہ راست تجارتی معاملات اور غیر تجارتی معاملات سے ہے اور جب تک ان کو دور نہیں کر لیا جاتا، خطے کے ملکوں، خاص طور پر پاک بھارت تجارت کے حجم میں اضافہ ممکن نہیں۔ بھارت اور پاکستان کی جانب سے اس وقت بھی اشیاء کی ایسی فہرستیں تیار ہیں جن کی تجارت نہیں ہوسکتی ہے اور اگر ہوبھی تو وہ تقریباً ناممکنات میں شامل ہے کیونکہ شرائط ایسی عائد کی گئی ہیں کہ ایسی اشیاء کی تجارت ہی ممکن نہیں ہے۔پاکستان کے پاس 936اشیاء اورٹیرف لائنز کی17.9 فیصد کی ایسی فہرست تیار ہے جن کا اطلاق جنوبی ایشیاء آزاد تجارتی علاقہ (SAFTA)ممالک سے برآمدات پر ہوتا ہے۔اسی طرح بھارت کی جانب سے بھی25اشیاء اورٹیرف لائنز کی0.5فیصد مقدار کو اس زمرے میں رکھاگیا ہے تاہم بھارت کے پاس پاکستان اور سری لنکا کیلئے اس سے بڑ ی64اشیاء کی آئٹم لسٹ موجود ہے جو ٹیرف لائنز کا11.7فیصد بنتا ہے لیکن عملی طور پر یہ رکاوٹ صرف پاکستان کیلئے ہے کیونکہ سری لنکا کے ساتھ علیحدہ آزاد تجارتی معاہدہ ہونے کی وجہ سے بھارت سری لنکا کیلئے محدود حساس لسٹ پر عمل کررہا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی جانب سے سافٹا کے تحت ٹیرف لائنز کی82.1فیصد مقدار کی ترجیحی رسائی کی منظوری بھارت کیلئے جزوی طور بلاک کی گئی ہے کیونکہ پاکستان نے 1209اشیاء کو منفی لسٹ میں ڈال دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں بھارت سے درآمد نہیں کیاجاسکتا ہے۔عملی طور پر ان میں سے بیشتر اشیاء بھارت سے تیسرے ملک خاص کر متحدہ عرب امارات کے ذریعے پاکستان درآمد کی جاتی ہیں ۔ واہگہ کے راستے پاکستان بھارت سے صرف138اشیاء درآمد کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔اتنا ہی نہیں،مال بردار ٹرکوںکو سرحد پر ان لوڈ کرنا پڑتا ہے جبکہ تجارتی برادری کیلئے ویزا کا حصول آسان نہیںہے ۔گوکہ یہ تجارت جاری ہے تاہم اس میں وسعت نہیں آرہی ہے اور دونوں جانب سے اس کو فروغ دینے کے اقدامات نہیںکئے جارہے ہیں۔ اس وقت بنگلہ دیش سے بھارت کی تجارت 45 فیصد ہے، نیپال سے 70 فیصد، سری لنکا سے 50 فیصد اور بھوٹان سے 80 فیصدتاہم پاکستان کے ساتھ باہمی تجارت کا حجم ڈبل ڈیجٹ میں بھی نہیںہے ۔ کسی زمانے میں یہ شرح 50فیصد سے زیادہ تھی ۔بھارت اور پاکستان کی تجارت کا آغاز تقسیم ملک کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ 1947سے شروع ہونے والی یہ دوطرفہ تجارت 1949 تک پہنچتے پہنچتے 58 فیصد ہوگئی تھی۔ پاکستان اپنا خام مال بھارت بھیجتا اور اس کے بدلے میں دوسری اشیاء درآمد کرتا۔یہ سلسلہ بخوبی جاری تھا کہ 1949 میں بھارت نے اپنی کرنسی یعنی روپے کی قیمت میں کمی کردی اور یہ چاہا کہ پاکستان بھی ایسا کرے مگر پاکستان نے انکار کردیا۔ ان حالات میں تجارتی تعلقات مخدوش ہونے شروع ہوئے اورآخر کاردونوںنے تجارت بند کردی۔ یہ تعطل تقریباً دو سال تک قائم رہا۔ دونوں ملکوں میں تجارتی تعلقات کیسے سردی مہری کا شکار ہوئے اور یہ تعطل کیوں پیدا ہوا؟ اس کی سمجھ مجھے تو کیا ماہرین معاشیات کو بھی نہیں آسکی۔ اس کے بعد پھر تجارتی ڈول ڈالا گیا تو اب کے اسے’’باڈر ٹریڈ ایگریمنٹ‘‘ کا نام دیا گیا اور یہ تجارت جو 58 فیصد تک جاپہنچی تھی، 1965 تک صرف 2 فیصد رہ گئی اورپھر یہ ہوا کہ 1965 سے 1974 آتے آتے یہ بالکل ختم ہوکے رہ گئی۔ 1974 کے بعد دوبارہ ایک معاہدے کے تحت پاکستان نے بھارت سے رکشے درآمد کئے۔ بعد ازاں 1982 کے آتے آتے ایک معاہدے کی رو سے 42 اشیا کی تجارت کا آغاز کیا گیا۔ اس معاہدے کا نام ٹریڈ کارپوریشن آف پاکستان تھا جو بعد میں ایک بزنس کمیشن کی شکل میں تبدیل ہوگئی۔ 1988 تک تجارتی اشیا کی تعداد 42 سے بڑھ کر 575 تک ہوگئی۔ عالمی تجارتی معاہدہ پر جب بھارت اور پاکستان نے دستخط کئے تو دونوں ممالک کیلئے ایک دوسرے کو تجارتی لحاظ سے پسندیدہ ترین ملک قرار دینا لازمی بن گیا۔بھار ت نے1996میں پاکستان کو یہ درجہ دیا تاہم پاکستان کی جانب سے بھارت کو تجارتی زبان میں موسٹ فیورڈ نیشن یا سب سے پسندیدہ ملک قرار دینے کا معاملہ سولہ برس سے التواء کا شکار تھا۔ بھارت نے پاکستان کو ایم ایف این کا درجہ 1996میں دیا تھا لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ دو بڑے معاملات یعنی کشمیر اور مقامی صنعتوں کے تحفظ کو وجوہات بتا کر اس سے کنی کتراتی رہی ہے۔اس کے باوجود تقریباً دو ہزار اشیاکی ایک ایسی حکومتی منظور شدہ ’پازیٹو’ فہرست تھی کو باضابطہ طور پر بھارت سے درآمد کیا جا سکتا تھا۔ اس فہرست میں 1996میں محض چند سو اشیاء شامل تھیں۔ عالمی سطح پر پاکستان چونکہ ڈبلیو ٹی او کا رکن ہے لہٰذا اس معاہدے کے تحت ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ ان کے درمیان تجارت کو سہل بنایا جائے اور ٹیکس اور ڈیوٹیاں نہ صرف کم کی جائیں بلکہ تمام ممالک کے لیے برابر رکھی جائیں۔ تاہم اکثر ممالک ایم ایف این کا درجہ دینے کے باوجود اپنی مقامی صنعتوں کو بچانے کی خاطر ٹیکسوں میں تو کمی کر دیتے ہیں لیکن ایسے ’نان ٹیرف بیرئر‘ کھڑے کر دیتے ہیں کہ تاجروں کو پھر بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ بھارت نے پاکستان کو درجہ دینے کے بعد بھی یہی کچھ کیا۔ سکیورٹی، دیگر کلیرنسز اور این او سی کی ایسی لائن لگا دی کہ پاکستان برآمدکندگان کو ایم ایف این درجے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ پاکستان کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ درجے کے باوجود اپنی صنعت کو بچانے کی خاطر وہ نان ٹیرف بیرئر یقینا متعارف کرے گا۔ باہمی تنازعات ہر جگہ ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا میں ممالک کے درمیان تجارت فروغ پارہی ہے بلکہ آج کی تاریخ میں تجارت ہی معاملات کے حل کا سبب بن رہی ہے اور تجارتی تعلقات ہی سفارتی تعلقات کی نہج کا تعین کرتے ہیں۔ایسے میں بھارت اور پاکستان کوبھی چاہئے کہ وہ تجارتی تعلقات کو استوار کریں اور ساتھ ساتھ اہم سیاسی مسائل کا حل بھی تلاش کریں جس میں واقعی کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہے اور اگر یہ سلسلہ بلاروک جاری رہا تو کوئی مشکل نہیں کہ سیاسی مسائل بھی حل ہونگے اور تجارت کی گاڑی بھی چل پڑ ے گی۔