ہ صلاح الدین کا سہ رُخی فارمولہ مصنف - میرنقیب تاریخ - 16 اپریل 2018 کشمیر کی عسکری تحریک کے بااثر قائد اور پاکستان نشین متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ محمد یوسف شاہ عرف سیدصلاح الدین نے مقامی خبررساں ادارہ کرنٹ نیوز سروس کے مدیر رشید راہی کو دئے تازہ انٹرویو میں کچھ اہم باتیں کہی ہیں۔ انہوں نے دانشوروں، سول سوسائیٹی اداروں، صحافیوں، رضاکاروں اور دیگر سماجی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ موجودہ تحریک کی آئندہ راہیں متعین کرنے کے لئے مزاحمتی قیادت کی مدد کریں، انہیں مشورے دیں اور ان کی رہنمائی کریں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ عسکری قیادت مذاکرات کے خلاف نہیں ہے، لیکن ایجنڈا کے بغیر مذاکرات محض وقت گزاری ہے۔ انہوں نے پاکستان سے کہا کہ ریلیاں کرنا اور یوم یکجہتی منانا کافی نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا پاکستان کو ہر ملک کے دروازے پر دستک دے کر سفارتی سطح پر کشمیر کو گلوبلائز کرکے پوری دنیا کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔ صلاح الدین کے بیان کے تین پہلو ہیں۔ اول تو وہ مزاحمتی قیادت کے لئے سماجی اداروں کے تعاون کے متمنی ہیں، دوئم وہ بامعنی اور مبنی برایجنڈا مذاکرات کے قائل ہیں اور سوئم انہوں نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ بھارت کے خلاف سفارتی محاذ پر مہم شروع کرے۔ ان تینوں پہلوؤ ں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اور اس پس منظر میںایک اہم بات ذہن نشین کرنا ہوگی کہ کشمیر کی تحریک کا ڈائنامک کچھ ایسا ہے کہ مشوروں پر عمل کرنے کے لئے دلی اور اسلام آباد کو قائل کرنا شرط اول ہے۔ یوں تو کشمیر کی سیاسی سطح پر مزاحمتی قائدین کی طویل فہرست ہے، تاہم گزشتہ تین برس سے تین نام سرخیوں میں ہیں۔ مشترکہ مزاحمتی فورم کے بینر تلے سید علی گیلانی، میرواعظ عمرفاروق اور یاسین ملک ہی مظالم کے خلاف ردعمل ظاہر کرتے ہیں، ہڑتال کی کال دیتے ہیں اور عوامی مارچ کی قیادت کی کوشش کے دوران گرفتار کئے جاتے ہیں۔ لوگ اسی اتحاد ثلاثہ کے پروگرام کو فالو کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کا دانشور کلاس ورک ترک کرتا ہے، تاجر اپنی سرگرمی معطل کرتا ہے، صحافی اس خبر کی تشہیر کرتا ہے، ڈارئیور گاڑی کھڑی کردیتا ہے، ریڈی والا گھر میں پڑا رہتا ہے اور طلبہ و طالبات ٹیوشن تک نہیں جاتے۔ گزشتہ دس سال سے دانشوروں کا ایک غالب حلقہ ہڑتالی سیاست سے اختلاف کرتا رہا ہے، گو یہ سچ ہے کہ کوئی متبادل تجویز نہیں کیا گیا۔ جدید دور میں دانشوروں، سماجی اداروں، تاجروں ، رضاکاروں، قلم کاروں وغیرہ کی آرا ء جاننے کے لئے گول میز کانفرنس بلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چار دن تک فیس بک اور ٹوٹر یا اخباری کالموںکا تجزیہ کرلیجئے آپ کوحساس حلقوں کے مزاج یا ان کی خواہشات کا اندازہ ہوجائے گا۔ مزاحمتی قیادت کی مدد کرنا کوئی تقریب نہیں جس کا لال فیتہ کاٹ کر اس کا افتتاح کیا جائے۔اگر صلاح الدین نے مشاورت کی ضرورت کو محسوس کیا ہے، تو یہ ایک غیرمعمولی بات ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تیس سال بعد بھی عسکری یا سیاسی قیادت اگلے قدم کے بارے میں متذبذب ہے۔ تحریکیں دانشوروں کی آراء سے نہیں چلتیں۔ تحریکیں قیادت کی حکمت عملی سے چلتی ہیں۔ دانشور اس حکمت عملی کی تائید میں عوامی رائے قائم کریں تو بجا، اور تنقید کریں تو قیادت درستی کی کوشش کرتی ہے۔ رہا سوال پاکستان کو سفارتی محاذ پر سرگرم ہونے کی اپیل کا۔ یہ واقعی ایک اہم بات ہے کہ ایک گوریلا لیڈر کشمیر میں فوجی مظالم کے خلاف محسن اور مددگار ملک سے ملٹری نہیں بلکہ سیاسی اور سفارتی ایکشن چاہتا ہے۔ جن حلقوں کا صلاح الدین نے نام لیا ہے،فرض کرلیں ان کے درمیان اتفاق ہوگیا کہ پتھراؤ اور ہڑتال کا طریقہ کار غلط ہے؟ تو کیا قیادت اس پر جمع ہوجائے گی؟ اور اگر لوگوں نے کہہ دیا کہ صلاح الدین ایک عسکری رہنما ہوتے ہوئے بھی پاکستان جیسی نیوکلیر قوت کو بھارت پر حملہ کرنے کی بجائے سفارتی محاذ گرمانے کی صلاح دے رہے ہیں، تو ہم لوگ کیوں لاحاصل عسکریت کو چلا رہے ہیں؟ کم سن جوانیاں لٹ رہی ہیں۔ بلاشبہ بہت بڑے دل گردے کا مظاہرہ ہے جو نوجوان کررہے ہیں۔ لیکن ان قربانیوں سے کن کے کندھوں پر ستارے چمک رہے ہیں؟ جہاں تک بات چیت کا تعلق ہے، تو اس میں تیس سال سے کنفیوژن ہے۔ ہم لوگ بات چیت کے حامی ہیں، مگر بات چیت کے ایجنڈے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے شملہ میں بھارت کے ساتھ جو سمجھوتہ کیا اس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو حاشیہ پر دھکیلا گیا؟ یاد ہے جب مشرف نے کہا کہ ہم کشمیر کے منصفانہ حل کی خاطر یو این قراردادوں کی رٹ لگانا بند کردیں گے؟ نہ شملہ سمجھوتہ کے وقت کشمیر میں مظاہرے ہوئے، نہ مشرف کی اس بات پر کسی کے ماتھے پر شکن آئی۔ اس حوالے سے سید علی گیلانی نے جو فارمولہ سامنے لایا ہے اس کی باقاعدہ تشہیر بھارت میں مطلوب تھی۔ انہوں نے کہا ہے کہ قیدیوں کو رہا کیا جائے، کشمیر کو متنازعہ تسلیم کیا جائے، کشمیر یوں کو تصفیہ کے عمل کا ناگزیر فریق مانا جائے ، فوج کو بارکوں میں واپس بلایا جائے اور مزاحمتی قیادت کی سیاسی سرگرمیوں کو بحال کیا جائے۔یہ فارمولہ بھارتی عوام تک پہنچا ہی نہیں ہے۔ یہ حریت کانفرنس کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ یہ مناسب وقت ہے کہ اس فارمولہ پر مباحث کا آغاز ہو اور گیلانی صاحب بھی وضاحت کریں کہ بھارت کو اس سب پر آمادہ کرنے کے لئے کیا انتظام ہے۔صلاح الدین نے بروقت ایک سہ رُخی حکمت یعنی مشاورت ، مزاحمت اور مفاہمت کی طرف اشارہ کیا ہے، اگر واقعی وہ سیریس ہیں تو انہیںسوشل میڈیا اور اخباری کالموں میں بکھرے پڑے مشورے سمیٹنے ہونگے ۔