ہ یو این رپورٹ مصنف - پی جی رسول تاریخ - 9 جولائی 2018 ۔ 14جون2018کے روز جاری شدہ اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کی49صفحات پر مشتمل رپورٹ نے گویا ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے کیونکہ گزشتہ28برسوں میں یہ پہلی بار ہے کہ اس طرح کی رپورٹ سامنے آئی ہے اور اسی کے ساتھ ہی ہندوستان کی ناکام خارجہ پالیسی کی الٹی گنگا بھی شروع ہوچکی ہے ۔اگر چہ ہندوستانی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے رپورٹ کو حقائق کے برعکس اور جانبدارانہ قرار دیا تاہم اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ زید رعدالحسین نے اپنی رپورٹ کا نہ صرف دفاع کیا ہے بلکہ ہندوستان کو مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ ملکی وقار اور جمہوری اقدار کی خاطر اپنے گریباں میں جھانکے۔انڈین ایکسپریس کے اپنے26جون کے مضمون میں رعد الحسین نے اپنی رپورٹ کا نہ صرف دفاع کیا ہے بلکہ ہندوستان پر اخلاقی برتری جتاتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ یہ رپورٹ آگے کئی رپورٹوں کی ٹھوس بنیاد تیار کرچکی ہے جن میں ہیومن رائیٹس کونسل سے کہاگیا ہے کہ وہ تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک مکمل تصویر دنیا کے سامنے آئے اور اس کا سدباب بھی کرسکے ۔ انڈین ایکسپریس کے اپنے مضمون میں زید رعد الحسین نے لکھا ہے کہ سات دہائیوں کے تنازعہ نے کشمیریوں کو عملاً بے زبان مظلوم بنا کر رکھ دیا ہے اور کسی مسئلہ کے حتمی حل تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جاری رکھناقابل قبول نہیں ہے ۔حتمی مسئلہ کے حل کیلئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حل معطل نہیں رکھا جاسکتا ہے ۔انہوں نے زور دیکر لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے ہائی کمشنر کی حیثیت سے ان کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ اس بارے میں بات کرے۔انہوںنے دونوں حکومتوں کے بارے میں لکھا ہے کہ 2016سے ہی متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کی اجازت مانگتے رہے ہیں لیکن انہیں یہ اجازت نہیں ملی اور رپورٹ کیلئے ’’دور‘‘سے حقائق جمع اور اکٹھا کئے گئے۔انہوںنے ہندوستان کی حکومت کے ردعمل کو حیران کن قراردیا ہے کیونکہ بپن راوت سے مخاطب ہوکر رعد الحسین نے لکھا ہے کہ یہ رپورٹ خود سرکاری اعدادوشمار ،اسمبلی میںدئے گئے بیانات اور خود ہندوستانی سرکار کی رپورٹوں پر مشتمل ہے ،اس لئے اُن سے انکار ممکن نہیں ہے۔رپورٹ نے افسپا(1990)،پبلک سیفٹی ایکٹ(1978)کے علاوہ ہلاکتوں عصمت ریزیوں اور املاک کی تباہی کا بھی ذکر کیا ہے۔گوکہ اس رپورٹ میں سرحد کے دوسری طرف یعنی ’’آزاد کشمیر‘‘میں بھی انسانی حقوق کی پامالیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن خود نئی دہلی کومعلوم ہے کہ یہ اس نوعیت کی نہیں ہیں اور نہ اتنی زیادہ ہیں جتنی کہ ہندوستانی کشمیر میں ہوتی رہی ہیں۔ رعد الحسین نے ہندوستانی حکومت کو بڑے ناصحانہ انداز میں چیلنج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہندوستانی حکومت کو انسانی حقو ق کے بارے میں اپنے اندر اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور نئی دہلی کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس طرح کی خلاف ورزیوں سے عوام اور بالخصوص نوجوان ہندوستان سے نالاں اور ناراض ہوچکے ہیں۔کشمیر کے لوگوں نے با ر بار انصاف کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ تشد د کے چکرسے چھٹکارا پاسکیں۔نئی دہلی کو چیلنج کرتے ہوئے انہوںنے لکھا ہے کہ یہ رپورٹ واقعی ترغیب شدہ ہے اور ترغیب یہ خواہش ہے کہ یہ رپورٹ امن اور انصاف کے حصول میں مدد دے سکے اور اس کو اسی سپرٹ میں لیا جانا ضروری ہے ۔یوں ’’Listen to the voiceless‘‘عنوان کے مضمون میں رعدالحسین نے ہندودستانی ضمیر کو رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد پھر للکا را ہے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ 14جون کواقوام متحدہ کی یہ رپورٹ سامنے آئی جو1993میں ایرانی درمیانہ داری کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکی اور 19جون کو پی ڈی پی کی حکومت کو چلتا کردیا گیا ۔اغلب ہے کہ نئی دہلی کی آر ایس ایس سرکار اس رپورٹ کے حوالے سے پی ڈی پی سے سخت ناراض ہے کیونکہ رپورٹ میں اسمبلی اور دیگر سرکاری بیانات اور اعداد وشمار شامل ہیں۔اس رپورٹ نے مودی سرکار کی عالمی امیج تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ ہندوستان کی عالمی امیج اور ا سکی خارجہ پالیسی کے تئیں جو الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے ،اس میں اس رپورٹ کا بھی قابل ذکر حصہ ہے ۔سی آئی اے کے عالمی فیس بک ریکارڈ میں پہلے ہی سے بجرنگ دل اور وی ایچ پی کو مذہبی ملی ٹنٹ تنظیمیں قرار دیا گیا ۔اسی طرح سے 26سے28جون تک ہندوستانی نژاد اور ہندوستان کی زبر دست ہمدر داقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے ہندوستان کا دورہ کیا جہاں انہوںنے اہم ترین کام کے طور پر نئی دلی کو نومبر4تک ایران سے خام تیل کی در آمدگی کا مکمل مقاطعہ کا الٹی میٹم دیا ہے وہیں پر انہوںنے کھرے الفاظ میں کہا کہ انسانی حقوق اور مذہبی حقوق آپس میں الگ الگ نہیں ہیں اور یہ کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق شدید طور پر پامال ہورہے ہیں۔نکی ہیلی کا یہ بیان ہندوستان میں ایک کراری چپت قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ ہیلی پاکستان کے شدید مخالفین میں شمار ہوتی ہے ۔اس لئے ہندوستان کو کوسنا کسی بھی طور پر پاکستان نوازی پر محمول نہیں کیاجاسکتا ہے۔یہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ اب نئی دلی کے میڈیا میں ہندوستانی خارجہ پالیسی کی الٹی گنتی پر فکر مند مضامین کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اس میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کی چوٹ کو شدید طور پر محسوس کیا جارہا ہے ۔’’دی پرنٹ ‘‘میں اس حوالے سے شیکھر گپتا کا ایک طویل مضمون شائع ہوا ہے جس میں صاف صاف لکھا گیا ہے کہ مودی کی خارجہ پالیسی کی دھجیاں بکھر چکی ہیں ،دنیا ہندوستان کو بالکل اُس نظر سے دیکھ نہیں رہی ہے جس نظر سے ہمیں یقین دلایا گیا تھا کیونکہ مودی دنیا بھر میں گھومتے رہے اور وہ سب بے کار ہوچکا ہے ۔اسی طرح سے ’’ڈی این اے‘‘میں شاستری راما چندرن نے بھی یہی لکھا ہے کہ ہندوستان کے خلاف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے گویا عالمی سطح پر ہندوستان کے خلاف ایک محاذ کھولا ہے جس سے یہ ملک بے خبر رہا ۔دنیا میں امریکہ ،چین کی پالیسیوں کے حوالے سے جو بھی تبدیلیاں آئی ہیں،و ہ ہندوستان کے حق میں نہیں گئی ہیں ،اس ملک کی عالمی تصویر داغدار ہوچکی ہے۔ یہاں پر ایک اور کتاب کا تذکرہ برمحل ہے جس سے امکان ہے کہ عرب دنیا میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں کافی بیداری پیدا ہوگی ۔28جون کو قاہرہ میں پاکستانی سفیر نے اردن کے نامور مصنف عمر محمد نازل الار موتی کی ایک کتاب کا اجراء کیا۔اس موقعہ پر الاہرا م اور شیخ الاازہر کے نمائندے بھی موجود تھے ۔کتاب کا نام عربی میں ہے جس کا اردو ترجمہ ’’تنازعہ کشمیر …امت مسئلہ کا حل طلب مسئلہ ‘‘ہے ۔مصنف کا کہنا ہے کہ اس کتاب سے عالم عرب میں کشمیریوں کی جدوجہد اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بیداری پیدا کرنے میں کافی مدد ملے گی ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالم عرب میں ہندوستان کے خلاف رائے عامہ پیدا ہونے سے اس کے مفادات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے ۔نہ صرف ہندوستان90فیصد خام تیل کی بر آمدات عرب دنیا سے برآمد کرتا ہے اور اس کے لاکھوں شہری اربوں روپے کا زر مبادلہ بھی وہیں کماتے ہیں ۔مزید ہندوستانی برآمدات کی کھربوں کی آمدنی بھی مسلم عرب دنیا سے وابستہ ہے۔ چونکہ رعد الحسین کا تعلق بھی عالم عرب سے ہی ہے ۔اسلئے کشمیرکے بارے میں اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کا عرب میڈیا میں بھی کافی چرچا ہورہا ہے جس سے ہندوستان کی شبیہ بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔اس کے ساتھ ہی اردن کے مصنف کی کتاب بھی اس میں کافی اضافہ کرسکتی ہے ۔اس سے عرب دنیا کی رائے عامہ میں کافی تبدیلی کے امکانات ہیں جس سے ہندوستان کے سب سے زیادہ مفادات وابستہ ہیں ،اس لئے یہ ہندوستان کیلئے کافی پریشانی کا باعث ہے۔ رعدالحسین کی رپورٹ کا ایک اور اہم پہلو کا تذکرہ یہاں ضروری ہے ۔چونکہ اس رپورٹ پر وادی میں مباحثہ نہ ہونے کے برابر ہوا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ اسی روز معروف صحافی سید شجاعت بخاری کی نامعلوم افراد کے ہاتھوں شہادت بھی ہے ۔چونکہ مرحوم صحافی نے بھی اس رپورٹ کی تیاری میں قابل ذکر کردا ر ادا کیا تھا،جس کا اعتراف خود رعدالحسین نے بھی اپنے ایک بیان میں کیا ۔ہمارے یہاں رپورٹ کو دیکھے یا اس کے مضمرات سمجھے بغیر ہی بعض مزاحمتی حلقے عالمی اداروں کی ’’مجرمانہ خاموشی‘‘کی گردان سے باہر نہیں نکلتے ہیں ،اس لئے انہیں اس کے وسیع تر مضمرات صرف نظر ہوجاتے ہیں۔البتہ یہ بات زور دیکر جاننے کی ضرورت ہے کہ اس رپورٹ کا نئی دہلی اور فوج پر شدید اثر نظر آتا ہے ۔عموماً یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بالخصوص گورنر راج میں فوج کشمیریوںکے خلاف شدید کاروائیاں جاری رکھنے کے سات ساتھ ان میں مزیدشدت پیدا کرے گی تاکہ 2019میں آر ایس ایس کو ملکی انتخابات جیتنے میں مدد ملتی کیوکہ جتنا کشمیری خون بہے گا،یہاں کے مکانات بارود سے اڑا دئے جائیں گے ،ثمر بار درخت او ر عوامی جائیداد کی بربادی ہوگی ،اسی قدر ہندو بیلٹ میں آر ایس ایس کے حق میں انتخابی فائدہ ہوتا لیکن لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے بعد فوج اور نئی دلی کی مودی حکومت اپنے خون ریز منصوبوں کے بارے میں تردد کا شکار ہوچکی ہے ۔چونکہ عالمی سطح پر بھی خارجہ پالیسی کی اُلٹی گنتی کے ساتھ ہندوستان داغدار ہوتا جارہا ہے۔اس لئے غالباً گزشتہ28برسوںمیں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ کسی عالمی ادارے کی رپورٹ کی وجہ سے کشمیری شدید زیادتیوںکا شکار بننے سے کافی حد تک محفوظ ہورہے ہیں۔یہ اس رپورٹ کی عملی افادیت ہے جس کیلئے کشمیری عوام کو رعد الحسین کا شکر گزار ہونا چاہئے جنہوںنے ذاتی دلچسپی لیکرنہ صرف رپورٹ تیار کی بلکہ پھر پوری قوت سے اپنی رپورٹ کا بھرپور دفاع بھی کیا ہے۔فی الوقت یہ رپورٹ بروقت بچائو کا کام بھی کررہی ہے۔